Monday, October 31, 2022

زبان ہند ہے اردو تو ماتھے کی شکن کیوں ہے

 

وطن میں بے وطن کیوں ہے

مری مظلوم اردو تیری سانسوں میں گھٹن کیوں ہے

تیرا لہجہ مہکتا ہے تو لفظوں میں تھکن کیوں ہے

اگر تو پھول ہے تو پھول میں اتنی چبھن کیوں ہے

وطن میں بے وطن کیوں ہے

یہ نانکؔ کی یہ خسروؔ کی دیاشنکرؔ کی بولی ہے

یہ دیوالی یہ بیساکھی یہ عید الفطر ہولی ہے

مگر یہ دل کی دھڑکن آج کل دل کی جلن کیوں ہے

وطن میں بے وطن کیوں ہے

یہ نازوں کی پلی تھی میرؔ کے غالبؔ کے آنگن میں

جو سورج بن کے چمکی تھی کبھی محلوں کے دامن میں

وہ شہزادی زبانوں کی یہاں بے انجمن کیوں ہے

وطن میں بے وطن کیوں ہے

محبت کا سبھی اعلان کر جاتے ہیں محفل میں

کہ اس کے واسطے جذبہ ہے ہمدردی کا ہر دل میں

مگر حق مانگنے کے وقت یہ بیگانہ پن کیوں ہے

وطن میں بے وطن کیوں ہے

یہ دوشیزہ جو بازاروں سے اٹھلاتی گزرتی تھی

لبوں کی نازکی جس کی گلابوں سی بکھرتی تھی

جو تہذیبوں کے سر کی اوڑھنی تھی اب کفن کیوں ہے

وطن میں بے وطن کیوں ہے

محبت کا اگر دعویٰ ہے تو اس کو بچاؤ تم

جو وعدہ کل کیا تھا آج وہ وعدہ نبھاؤ تم

اگر تم رام ہو تو پھر یہ راون کا چلن کیوں ہے

وطن میں بے وطن کیوں ہے

Saturday, October 29, 2022

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

 

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

ہم تو سمجھے تھے کہ ہم بھول گئے ہیں ان کو

کیا ہوا آج یہ کس بات پہ رونا آیا

کس لیے جیتے ہیں ہم کس کے لیے جیتے ہیں

بارہا ایسے سوالات پہ رونا آیا

کون روتا ہے کسی اور کی خاطر اے دوست

سب کو اپنی ہی کسی بات پہ رونا آیا

Tumhari haan pe wohi sardion ka mausam hay!